
(۱) اہل اسلام کے لئے جہاد فرض ہے، مگر عورتوں کے لئے حج ہی جہاد ہے۔
(۲) صدقہ و خیرات گن گن کر نہ دیا کرو، ورنہ اللہ رب العزت بھی گن گن کر دے گا۔
(۳) اللہ رب العزت کی قسم میرے رتبہ کے اشخاص کسی بات کو گھر چھپا کر باہر نہیں نکلتے، بات صاف کرتی ہوں، ایسی بات جس میں انصاف ہی انصاف ہو۔
(۴) اے مسلمانو! میرا تم پر مادری حق ہے اور نصیحت کی عزت حاصل ہے۔
(۵) میں تمہیں اللہ عز و جل اور اسلام کی یاد دلاتی ہوں، کتاب الٰہی کو اس کے احکام کے اجراء سے قائم رکھو۔
(۶) اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو۔
(۷) کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں، مگر تین اسباب سے:۔۱۔یا تو وہ مرتد ہوجائے۔ ۲۔ زنا کا ارتکاب کرے، ۳۔ کسی کو قتل کردے۔
(۸) مسلمان کا جنازہ اٹھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ مسلمان پاک ہے۔
(۹) عورت کی میت کے بال نہیں سنوارنے چاہئیں۔
(۱۰) نماز میں عورت کے سامنے آجانے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
(۱۱) اگر شوہر کو ڈرا دھمکا کر اس کی بیوی کو طلاق دلوائی جائے تو طلاق نہ ہوگی۔
(۱۲) خانہ کعبہ، صفا اور مروہ کا طواف، کنکریاں پھینکنا تو صرف اللہ تعالیٰ کی یاد قائم کرنے کے لئے ہی ہے۔
(۱۳) مہمانوں کی خاطرداری میں خرچ کرنا فضول خرچی نہیں ہے۔
(۱۴) کھانا کم کھایا کرو کہ تم پر سستی حملہ آور نہ ہو۔
(۱۵) خیر اسی میں ہے کہ شر و فساد سے بچو۔
(۱۶) زبان کی حفاظت کرو، کیونکہ عزت و ذلت کی یہی ذمہ دار ہے۔
(اقوال کا خزانہ)
۱۔حضورﷺکے بعد امت میں سب سے پہلے جو مصیبت پیدا ہوئی وہ پیٹ بھرنا ہے؛کیونکہ جب کوئی قوم پیٹ بھرکرکھاتی ہے تو ان کے بدن موٹے ہوجاتے ہیں اور ان کے دل کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی خواہشات بے قابو ہوجاتی ہیں۔
(رواہ البخاری فی کتاب الضعفاء، الترغیب والترھیب:۳/۴۲۵)
۲۔تم دعا میں بتکلف قافیہ بندی سے بچو؛کیونکہ حضورﷺ اورآپﷺ کے صحابہؓ اس طرح قصداً نہیں کیا کرتے تھے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۷)
۳۔ایساہرگزنہ کرناکہ تم کسی جگہ جاؤ اور وہاں والے آپس میں بات کررہے ہوں اورتم ان کی بات کاٹ کر اپنا بیان شروع کردو؛بلکہ انہیں اپنی بات کرنے دو اورجب وہ تمہیں موقع دیں اورکہیں تو پھران میں بیان کرو۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۳۷)
۴۔ہفتہ میں ایک دفعہ لوگوں میں بیان کیا کرو اورزیادہ کرنا چاہو تو دو دفعہ ورنہ زیادہ سے زیادہ تین دفعہ کیا کرو اس سے زیادہ نہ کرو ورنہ لوگ(اللہ کی) اس کتاب سے اکتاجائیں گے۔
(حیاۃ الصحابۃ :۳/۲۳۷)
۵۔حضرت عائشہؓ نے حضرت معاویہؓ کو خط میں یہ نصیحت لکھ بھیجی:
"اما بعد!جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والے اعمال کرتا ہے،اس کی تعریف کرنے والے بھی اس کی مذمت میں لگ جاتے ہیں"
(نفحۃ العرب:۱۳۲)
(۶)بندہ جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کی تعریف کرنے والا اس کی مذ مت کرنے لگتا ہے ۔
