مسلمانوں کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا ایک شخص اپنے اُونٹ پر سوار کہیں جارہا تھا کہ وہ مکہ مکرمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً سے تھوڑی دُور شرم و حَیا کی پیکر ایک باپردہخاتون کو وِیرانے میں پیدل سفر کرتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اسے شک گزرا کہ یقیناً یہ عِفَّت مآب خاتون انہی مسلمانوں میں سے ہو گی جنہیں اَہلِ مکہ نے مدینہ جانے سے روک رکھا ہے۔ تفتیشِ حال پر جب اس خاتون نے بھی اس شخص کے سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حلیف قبیلے بنی خُزاعہ کا فَرد ہونے کی وجہ سے یہ تسلیم کر لیا کہ وہ واقعی سُوئے مدینہ رَواں ہے تو اس شخص کے دِل نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اس عاشقہ کو یوں تنہا سفر کرنے دے۔ چنانچہ اس نے اپنا سفر مَوقُوف کیا اور اپنا اُونٹ اس باپردہ خاتون کو پیش کر کے مدینہ پہنچانے کا عَزْمِ مُصَمَّم (پختہ ارادہ) کر لیا اور یوں شرم و حَیا کی پیکر اس باپردہ خاتون نے بھی اسے غیبی اِمداد سمجھ کر قبول کر لیا۔
یوں ایک ایسا خاموش سفر شروع ہوا جس نے تاریخ کے اَوراق میں وہ سنہری یادیں چھوڑیں جس پر آج بھی بلاشبہ رَشک کیا جاسکتا ہے۔ عشقِ سرکار میں مُضْطَرِب ہو کر تن تنہا سُوئے مدینہ رَخْتِ سفر باندھنے والی اس باپردہ خاتون کی ہِمَّت کے کیا کہنے! وہ خود اپنے اس سفر کی داستان کچھ یوں سناتی ہیں کہ دورانِ سفر اس شخص نے راستے بھر مجھ سے کوئی کلام نہ کیا، بلکہ جب آرام کا وَقْت ہوتا تو وہ اُونٹ کو بٹھا کر دُور ہٹ جاتا اور میں کجاوے سے نکل کر کسی سایہ دار درخت کے نیچے ہو جاتی، پھر وہ اُونٹ کو مجھ سے دُور کسی اور درخت کے نیچے باندھ دیتا اور خود بھی وہیں کہیں آرام کر لیتا اور جب دوبارہ سفر کا وَقْت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ رکھ کر اسے میرے پاس چھوڑ کر پھر دُور ہٹ جاتا، میرے سوار ہونے کے بعد خاموشی سے آکر نکیل پکڑتا اور سُوئے مدینہ چل پڑتا۔ یوں دَورانِ سفر بھی میں نقاب میں رہی اور پردے کے اِہتِمام میں مجھے کوئی دُشواری پیش نہ آئی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس شخص کو جزائے خیر عطا فرمائے اس نے بہت اچھے کردار کامُظاہَرہ کیا۔
آخر جب میں مدینہ پہنچی تو سب سے پہلے اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے کاشانَۂ اَقْدَس پر حاضِر ہوئی۔ میں اس وَقْت بھی نِقاب میں تھی جس کی وجہ سے سیّدہ اُمِّ سَلَمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے مجھے نہ پہچانا، لہٰذا میں نے چہرے سے نِقاب ہٹا کر انہیں اپنا تعارُف کروایا اور جب بتایا کہ میں نے تنہا ہجرت کی ہے تو وہ دنگ رہ گئیں اور حیرت سے پوچھنے لگیں کہ کیا واقعی! تم نے تنہا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رضا کی خاطِر ہجرت کی ہے؟ میں نے اِقرار کیا،ابھی ہم باتیں ہی کر رہی تھیں کہ رسولِ اَکرم،شاہ ِبنی آدم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بھی تشریف لے آئے اور تمام صورت ِحال جان کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اھلاً و سہلاً کے دل آویز اَلفاظ سے مجھے خوش آمدید کہا اور میرے اس طرح اِسلام کی خاطِر ہجرت کرنے کو سراہا۔
(صفةالصفوة ،ذكر المصطفيات من طبقات الصحابيات،ام کلثوم بنت عقبه بن ابی معیط، المجلد الاول، ٢/ ٣٩)