(۶۱)مومن کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ اپنی بیوی سے ناراض رہا کرے، کیونکہ اگر اس کو اپنی بیوی کی کوئی عادت ناپسند ہے تو کئی پسندیدہ بھی ہوگی۔
(۶۲)کسی قوم کی نقالی کرنے والے کو اسی قوم میں ہی یومِ محشر میں اٹھایا جائے گا۔
(۶۳)مظلوم کی بد دعاء سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔
(۶۴)اگر تم اللہ پر توکل ویسا کرو جیسا توکل کا حق ہے تو اللہ تم کو ویسی ہی روزی عطا فرمائے گا جیسے پرندوں کو روزی ملتی ہے، کہ صبح بھوکے اڑتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر سوتے ہیں۔
(۶۵)قیامت کے دن مومن کے اعمال کے ترازو میں کوئی چیز حسن اخلاق سے بڑھ کر نہ ہوگی، اللہ تعالیٰ بدگو اور بدزبان شخص کو پسند نہیں کرتا۔
(۶۶)احسان کرنے والوں کو اللہ اپنا دوست سمجھتا ہے۔
(۶۷)فسادی لوگوں کو اللہ پسند نہیں کرتا۔
(۶۸)گناہگار کا دل بُرے اعمال کی کثرت کی وجہ سے اس کا اس قدر عادی ہوجاتا ہے کہ اس کو اپنے بُرے اعمال کا احساس نہیں رہتا اور اسی لئے اپنے بد افعال کو لگام نہیں دے پاتا۔
(۶۹)تین باتوں پر دیر کرنا غلط ہے، ایک نماز میں جب اس کا وقت ہوچکا ہو، دوسرا جنازہ میں جبکہ جنازہ تیار ہوچکا ہو اور تیسرا یہ کہ بیوہ کے نکاح میں دیر مت کرو جبکہ اس کا جوڑ مل چکا ہو۔
(۷۰)مغفرت کی تین باتیں ضروری ہیں: (۱)مستحقوں کو کھانا دینا، (۲)ہر مسلمان کو سلام کرنا۔ (۳)سب کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا۔
(۷۱)مومن ایمان کے حقیقی رتبہ پر اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا ہے جب تک وہ تمام مومنوں کے لئے وہی بھلائی نہ چاہے جو اپنے لئے چاہے۔
(۷۲)اخلاقی برائی نیک اعمال کو اس طرح برباد کردیتی ہے کہ جس طرح سرکہ شہد کو۔
(۷۳)ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بد اخلاقی کی توبہ نہیں۔
(۷۴)تم میں سے میرے نزدیک سب سے اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔
(۷۵)عملوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔
(۷۶)ہر کام کا درمیانی حصہ سب سے بہتر ہوتا ہے۔
(۷۷)اپنے مسلمان بھائی کا دل خوش کرنا گویا اللہ کو خوش کرنا ہے۔
(۷۸)مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ جو چیز اپنے لئے پسند کرے وہ اپنے دوسرے مومن بھائی کے لئے پسند نہ کرے۔
(۷۹)ظالم کی مدد کرنا گویا عذابِ الٰہی کو دعوت دینا ہے۔
(۸۰)جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہو اس کو پڑوسی کی تکریم کرنا چاہئے۔
(۸۱)تمہارا پڑوسی اگر تم سے مدد مانگے تو اس کی مدد کرو، قرض مانگے تو اس کو قرض دیدو، اور اگر کوئی کام کہے تو کام کردو، اگر مرجائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ، اُسے فائدہ پہنچے تو مبارکباد دو، رنج پہنچے تو افسوس کا اظہار کرو، اس کی اجازت کے بغیر اپنا مکان اونچا مت کرو، کہیں اس کی ہوا نہ رُکے، کوئی میوہ خریدو تو اس کو ہدیہ دو، ورنہ چھپا کر گھر لاؤ اور اپنے بچہ کو میوہ لے کر باہر نہ جانے دو، مبادا! اس کے بچہ کو رنچ پہنچے، اپنی ہنڈیا کو خوشبو دار بگھار سے اس کو ایذاء نہ دو، مگر یہ بہتر ہے کہ سالن اس کو بھیج دو، یہ وہ حقوق ہیں جو صرف اسی سے پورے ہوسکتے ہیں جس پر اللہ کا رحم ہو۔
(۸۲)کھانا کھلانا اور واقف اور ناواقف کو السلام علیکم کہنا بہترین اسلام ہے۔
(۸۳)مسلمان کی رنجش کا خاتمہ السلام علیکم سے ہے۔
(۸۴)بہتر صدقہ وہ ہے کہ جب تم صدقہ دو تو اپنے عزیز و اقارب پر پہلے خرچ کرو۔
(۸۵)اپنی حیثیت کے مطابق صدقہ دینا احسن عمل ہے۔
(۸۶)سخی کا کھانا دوا ہے اور کنجوس کا کھانا مرض ہے۔
(۸۷)کسی مومن کے دل میں ایمان اور حسد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
(۸۸)مومن کا چہرہ ہشاش بشاش مگر دل غمگین رہتا ہے۔
(۸۹)مومن کی فراست سے بچو! بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔
(۹۰)ایماندار کا غصہ بھی جلد ہوتا ہے اور وہ راضی بھی جلدی ہوجاتا ہے۔
(۹۱)ایماندار وہ شخص ہے کہ جس سے لوگ اپنی جان و مال کو محفوظ سمجھیں۔
(۹۲)مومن کو تکلیف دینا اللہ کے نزدیک بہت بڑا گناہ ہے۔
(۹۳)اپنی زبان کو بند رکھنے میں اپنے گھر میں عبادت کے لئے قیام کرنے میں اور اپنے گناہوں پر نادم ہونے میں ہی نجات ہے۔
(۹۴)بحث مباحثہ کرنے والا اور بہت زیادہ جھگڑا اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
(۹۵)زیارت قبور کے لئے جایا کرو! خودعبرت حاصل کرو اور مسلمانوں کے لئے مغفرت کی دعاء کیا کرو۔
(۹۶)دنیا کی محبت سب گناہوں کی سردار ہے، کیونکہ ایک یہی چیز تمہیں گونگا، اندھا اور بہترا کردیتی ہے۔
(۹۷)دنیا کی محبت پر خطا کی جڑ ہے۔
(۹۸)تم سب کو اپنی ساری حاجتیں اپنے اللہ سے ہی مانگنی چاہئیں، حتٰی کہ اگر چپل کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو اسی سے امید رکھنی چاہئے۔
(۹۹)قسم کھانے سے منافعہ زیادہ مل سکتا ہے مگر برکت گھٹ جاتی ہے۔
(۱۰۰)جو قصور وار ہوگا اُسی سے پوچھا جائے گا، باپ کا قصور بیٹے سے اور نہ ہی بیٹے کا قصور باپ سے پوچھا جائے گا۔
(۱۰۱)جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں خوشحال کیا ہے تو ضروری ہے کہ اس نعمت اور سرفرازی کا اظہار تمہاری وضع قطع اور رہن سہن سے ہو۔
(۱۰۲)اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتا ہے کہ جو نعمت اس نے اپنے کسی بندے کو عطاء کی ہے اس کے نشانات و علامات اس بندے میں دیکھے۔