(۱۴۰)تمام اعمال کی قبولیت کا مدار نیت کی صحت و سلامتی پر ہے (یعنی اس عمل کا خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہونا ضروری ہے ) ۔
(۱۴۱)دو عادتیں ایسی ہیں کہ ان سے بہتر کوئی عادت نہیں : اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور مسلمانوں کو نفع پہونچانا ؛ اس کے بر خلاف دو عادتیں اس قدر بریہیں کہ انسے بری کوئی عادت نہیں:اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور کسی مسلمان کو ضرر پہونچانا ۔
(۱۴۲)مسلمانو !تم پر علماء صحبت اور حکماء کی باتیں سننا لازم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ حکمت کے نور سے مردہ قلوب کو اس طرح زندگی بخشتا ہے جس طرح خشک زمین کو بارش کے ذریعہ روئیدگی ملتی ہے۔
(۱۴۳)گناہِ صغیرہ بار بار کرنے سےصغیرہ نہیں رہتا بلکہ کبیرہ ہوجاتا ہے اور گناہِ کبیرہ استغفار کے بعد باقی نہیں رہتا بلکہ محو ہوجاتا ہے۔
(۱۴۴)تمام گناہوں کی جڑ دنیا ہے اور تمام فتنوں کی جڑ عشر اور زکوۃنہ ادا کرنا ہے ۔
(۱۴۵)دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ، ترازو میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو پسند ہیں ’’سبحان اللہ و بحمدہ ، سبحان اللہ العظیم‘‘۔
(۱۴۶)اللہ تعا لیٰ نے بعض انبیاء کی جانب وحی بھیجی کہ: جو مجھ سے اس حال میں ملے کہ اس کے دل میں مجھ سے محبت ہے تو اس کو جنت داخل کردونگا،اور جو اس حال میں ملے کہ اس کے دل میں مجھ سے خوف ہو تو دوزخ سے امان دےدونگا ، اور جو مجھ سے اس حال میں ملے کہ مجھ سے شرما رہا ہو تو میں اس کے گناہوں کو اس طرح مٹادونگا کہ نگہبان فرشتوں کے دھیان سے بھی نکل جائینگے۔
(۱۴۷)جو شخص صبح و شام تنگئ معاش کی شکایت کرتا رہتا ہے وہ در حقیقت اپنے رب کی شکایت کرتا ہے ، اور جو صبح اٹھتے ہی دنیاوی افکار اور غم میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ دراصل اپنے رب سے ناراض ہے ، اور جو شخص کسی مالدار کی محض اس کے مالدار ہونے کی وجہ سے عزت کرتا ہے اس کا دو تہائی دین غارت ہوجاتا ہے ۔
(۱۴۸)تین چیزیں نجات دلاتی ہیں ، تین ہلاک کرتی ہیں ، تین رفعِ درجات کا سبب ہیں ، اور تین کفارۂ سیئات ہیں۔
نجات دلانے والی تین چیزیں : ظاہراً و باطناً اللہ سے ڈرنا ، غربت اور مالداری میں میانہ روی اختیار کرنا ، غصہ اور رضامندی میں مساوات (یعنی دونوں حالتوں میں آدمی یکساں اور برابر ہو ) ۔
ہلاک کرنے والی تینچیزیں : انتہائی کنجوسی ، نفسانی خواہشات کی پیروی ، عجب وخود پسندی ۔
رفعِ درجات کی تین چیزیں : اسلام کو پھیلانا ، ایک دوسرے کو کھانا کھلانا ، اور راتوں میں عبادت کرنا۔
کفّارۂ سیئات کی تین چیزیں : سردی کے باوجود وضو اچھی طرح کرنا ، جماعت کی نماز کے واسطے چل کر جانا ، اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے لئے منتظر رہنا ۔
(۱۴۹)جوشخص گناہوں کی ذلّت کو چھوڑکر نیکیوں کی عزّت کو اختیار کرتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اس کو بغیر مال کے مالدار فرمادیتے ہیں ، بغیر لشکر کے اسکی امداد فرماتے ہیں ، اور بغیر کنبہ اور قبیلہ کے اس کی عزّت افزائی فرماتے ہیں ۔
(۱۵۰)محبت معرفت کی بنیاد ہے ، پاکدامنی یقین کی نشانی ہے ، اور یقین کی اصل بنیاد اللہ تعا لیٰ کےخوف اور تقدیر سے رضامندی پر ہے ۔
(۱۵۱)اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو بندوں کی تین خصلتیں بہت محبوب ہیں: نیکی کے کاموں میں اپنی صلاحیت و قوت صرف کرنا ، گناہوں کی ندامت سے رونا ، اور فقر و فاقہ کی تکلیف میں صبر کرنا ۔
(۱۵۲)اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت عُزیر علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے عُزیر ! اگر کسی معمولی گناہ کا تقاضا ہو تو گناہ کے معمولی ہونے کی طرف نظر نہ کرو بلکہ جس ذات کی نافرمانی ہو رہی ہے اس کی عظمت کا دھیانکرو، اگر تمہیں کوئی چھوٹی سی نعمت بھی ملے تو اس نعمت کی کمی کی طرف نظر نہ کرو بلکہ اسکے عطا کرنے والے آقا کی طرف دیکھو کہ کس عظیم و محبوب ہستی کی طرف سے یہ نعمت ملی ہے ، اور جب کوئی تکلیف پہونچے تو مخلوق کے سامنے میری شکایت اور مجھ سے گلہکرتے نہ پھرو ۔
(۱۵۳)کشتی اچھی طرح تیار کرلوکیونکہ دنیا کا سمندر بہت گہرا ہے ، سامانِ سفر اچھی طرح تیار کرلو کیونکہ سفرِآخرت بہت لمبا ہے ، گناہوں کا بوجھ ہلکا رکھو کیونکہ حساب کی گھاٹی سخت دشوار ہے ، اور عمل کو خالص رکھو کیونکہ پرکھنے والا بہت باخبراور باریک بیں ہے ۔
(۱۵۴)گناہوں کو یاد رکھنا ،نیکیوں کو بھول جانا ،دنیا میں اپنے سے کم اور خستہ حال لوگوں پر نظر رکھنا اور دینی معاملات میں اپنے سے زائدعمل کرنے والے آدمی کو دیکھنا سعادت و خوش بختی کی نشانی ہیں۔
(۱۵۵)انسان کے پاس چار قیمتی جوہر ہیں اور چار چیزیں ایسی ہیں جو ان کو زائل کردیتی ہیں : جوہرِ عقل اس کو غصہ زائل کردیتا ہے ، جوہرِ دین اس کو حسد زائل کردیتا ہے ، جوہرِ حیا اس کو لالچ زائل کردیتی ہے ، اور جوہرِ اعمال اس کو غیبت زائل ۔
(۱۵۶)میری امت پر بہت جلد ایسادور آنے والا ہے جب کہ وہ پانچ چیزوں سے محبت کریگی اوراس کے مقابلے میں پانچ چیزوں کو فراموش کردےگی یہ وہ لوگ ہیں کہ وہ مجھ سے بریہیں میں ان سے بری ہوں؛دنیا سے محبت کریں گےاور آخرت کو بھول جائیں گے ، گھروں سے محبت کریں گےاور قبروں کو بھول جائیں گے ، مال سے محبت کریں گےاور اس کے حساب کو بھول جائیں گے، گھر والوں سے محبت کریں گےاور حور و قصورِ جنت کو بھول جائیں گے، اور اپنی جانوں سے محبت کریں گےاور اللہ کی ذات کو بھول جائیں گے ۔
(۱۵۷)پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو اور ان کی قدر کرو : جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، مالداری کو محتاجی سے پہلے ، زندگی کو موت سے پہلے ، اور فرصت کو مصروفیت سے پہلے ۔
(۱۵۸)سرگوشی بھیدوں کی محافظ ہے ، صدقہ مالوں کا محافظ ہے ، اخلاص اعمال کا محافظ ہے ، صداقت باتوں کی محافظ ہے ، اور مشورہ عقلوں کا محافظ ہے ۔
(۱۵۹)سات قسم کے لوگ قیامت کے دن جب کہ کہیں سایہ نہ ہوگا عرشِ اعظم کے سایہ میں ہونگے : عادل اور انصاف پسند بادشاہ اور حاکم ، وہ نوجوان جو اللہ کی بندگی میں پروان چڑھاہو ، وہ شخص جو تنہائی میں اپنے اللہ کو یاد کرے تو اس کے خوف سے آنکھیں بہہ پڑتی ہوں ، وہ شخص جو کہیں بھی ہو اس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہو ، وہ شخص جو خیرات اس قدر چھپا کے کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہیں ہوتی کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا ، وہ دوست جو محض اللہ کے لئے باہم محبت رکھتے ہوں ، اور وہ شخص جسے کوئی خوبصورت عورت اپنی طرف مائل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے انکار کردے ۔
(۱۶۰)دنیا بے گھروں کا گھر ہے ، محتاجوں کا مال ہے ، اس کے جمع کرنے کے لئے وہی شخص مشغول رہتا ہے جو سمجھ سے محروم ہے ، اس کے پیچھے وہی دوڑتا ہے جو جاہل ہے ، اس کی بنیاد پر وہی شخص جلتا اور حسد کرتا ہے جو بےوقوف ہے ، اور اس کی تحصیل کے لئے وہی سرگرداں رہتا ہے جو یقین کی دولت سے محروم ہے ۔
(۱۶۱)لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ اس میں مروت اور دیگر اخلاق حمیدہ بہت کم ہوجائیں گے اور مرد مردوں کے باعث اور عورتیں عورتوں کے باعث ایک دوسرے سے مستغنیہوں گے جب یہ زمانہ آوے تو صبح و شام عذاب کا انتظار کرو ۔