
(۱) تمہیں چاہئے کہ قبل اس کے جھگڑا ہو جائے کنارہ کشی اختیار کرلو۔
(۲) اچھے کام پہلے پہل مشکل ہی دکھائی دیتے ہیں۔
(۳) انسان کی تباہی و بربادی گناہوں میں پنہاں ہے۔
(۴) وہ لوگ قابلِ رشک ہیں جو مجھ سے زیادہ صاحبِ علم ہیں۔
(۵) یقینی طور پر وہ لوگ قابل رحم ہیں جن کا علم مجھ سے کم ہے۔
(۶) کمزوروں کو معاف کرنا ہی دلیری ہے۔
(۷) خوشیاں تقسیم کرنے سے ہی خوشیاں حاصل ہوتی ہیں۔
(۸) اللہ تعالیٰ کی صفات کا شمار ممکن ہی نہیں۔
(اقوال کا خزانہ)
۱۔جب تمہارا کوئی دوست ،پڑوسی یا رشتہ دار سرکاری ملازم ہو اور وہ تمہیں کچھ ہدیہ دے یا تمہاری کھانے کی دعوت کرے تو تم اسے قبول کرلو (اگر اس کی کمائی میں کچھ شبہ ہے تو) تمہیں تو وہ چیز بغیر کوشش کے مل رہی ہے اور(غلط کمائی کا) گناہ اس کے ذمہ ہوگا۔
(کنزالعمال:۵/۶۶)
۲۔علم تو بہت زیادہ ہے اورعمر بہت تھوڑی ہے،لہذا دین پر عمل کرنے کے لئے جتنے علم کی ضرورت پڑتی جائے اتنا علم حاصل کرتے جاؤ اورجس کی ضرورت نہیں اسے چھوڑدو اور اس کے حاصل کرنے کی مشقت میں نہ پڑو۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۱۸۹)
۳۔جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ برائی اورہلاکت کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیاء نکال لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تم دیکھو گے کہ لوگ بھی اس سے بغض رکھتے ہیں اور وہ بھی لوگوں سے بغض رکھتا ہے۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۲۰۴)
۴۔جب بندہ راحت،مسرت اورثروت کے لمحات میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہتا ہے پھر اسے کبھی کوئی تکلیف آپہنچے اورخدا کے حضورفریاد کرے تو فرشتے سن کر کہتے ہیں کہ یہ مانوس آواز ہے جو اس بندے ضعیف کی ہے اس کے ساتھ ہی وہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی سفارش کرتے ہیں،اس کے برعکس جوشخص اپنے راحت کے اوقات میں اللہ کو یاد نہ کرتا ہو اورتکلیف پہنچنے پر جب یاد کرے تو فرشتے کہتے ہیں کیسی غیر مانوس آواز ہے ۔(پس وہ سفارش نہیں کرتے)
(سیرت سلمانؓ: ۲۲۱)
۵۔ہرانسان کے لئے باطن اورظاہر ہے جس نے اپنے باطن کی اصلاح کرلی اللہ تعالی اس کے ظاہر کی بھی اصلاح کردے گا اورجس نے اپنے باطن کو خراب کرلیا تو اللہ تعالی اس کے ظاہر کو بھی درست نہیں کرے گا۔
(حلیۃ الاؤلیاء:۱/۲۰۳)
۶۔لوگوں کو اگر پتہ ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کمزور کے ساتھ کس قدر شامل حال ہوتی ہے،تو وہ اس کا ساتھ دینے میں کوئی پس وپیش نہ کرتے اوراسے بظاہر بے یارو مددگار نہ چھوڑتے۔
(حلیۃ الاؤلیاء:۱/۲۰۰)
(۷)اس شخص سے تعجب ہے جو دنیا میں بڑی بڑی تمناؤں میں پھنسا ہوا ہے اور موت اس کی تلاش میں لگی ہوئی ہے ، اور اس شخص سے بھی تعجب ہے جو غفلت کا شکار ہے حالانکہ اس سے غفلت نہیں کی جارہی ہے ، اور ہنسنے والے سے بھی تعجب ہے کہ جس کو معلوم نہیں ہے کہ اس کا پروردگار اس سے راضی ہے یا ناراض ۔
