
۱۔جس چیز کو مومن (یعنی صحابہؓ)اچھا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی اچھی ہوگی اورجس چیز کو برا سمجھیں گے وہ چیز اللہ کے ہاں بھی بری ہوگی۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۳۷۵)
۲۔اللہ تعالی مال تو اسے بھی دے دیتے ہیں جس سے محبت ہو اوراسے بھی دے دیتے ہیں جس سے محبت نہ ہو لیکن ایمان صرف اسے ہی دیتے ہیں جس سے محبت ہو۔
(الترغیب والترھیب :۳/۹۵، حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۱)
۳۔اللہ تعالی ان لوگوں پر رحمت بھیجتے ہیں جو صفوں میں نماز کی پہلی صف کی طرف بڑھتے ہیں اوراس کے فرشتے ان کے لئے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۴۷)
۴۔جب تم دیکھو کہ تمہارے بھائی سے کوئی گناہ صادر ہوگیا ہے تو اس کے خلاف شیطان کے مددگارنہ بن جاؤ کہ یہ بددعائیں کرنے لگ جاؤ کہ اے اللہ! اسے رسوا فرما،اے اللہ!اس پر لعنت بھیج؛بلکہ اللہ سے اس کے لئے اوراپنے لئے عافیت مانگو۔
(حلیۃ الاولیاء:۴/۲۰۵)
۵۔ہم محمدﷺ کے صحابہ اس وقت تک کسی آدمی کے بارے میں کوئی بات نہیں کہتے تھے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس کی موت کس حالت پر ہوئی ہے اگر اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا تو ہم یقین کرلیتے کہ اسے بڑی خیر حاصل ہوئی ہے اوراگر اس کا خاتمہ برا ہوتا تو ہم اس کے بارے میں ڈرتے رہتے۔
(حلیۃ الاولیاء:۴/۲۰۵)
۶۔اہل کتاب سے کچھ بھی نہ پوچھا کرو ؛کیونکہ وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں،اس لئے تمہیں بھی ہدایت کی بات نہیں بتائیں گے،ہوسکتا ہے کہ وہ حق بات بیان کریں اور تم اسے جھٹلادو اورغلط بات بیان کریں اورتم اس کی تصدیق کردو۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۹۳)
۷۔بہترین مجلس وہ ہے جس میں حکمت کی باتیں بیان کی جائیں۔
(جامع بیان العلم:۱/۵۵)
۸۔متقی لوگ سردار ہیں اورفقیہ لوگ امت کے راہ نما ہیں اوران کے ساتھ بیٹھنے سے (ایمان وعلم میں)اضافہ ہوتا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۹۸)
۹۔جیسے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ میں اونٹ ہوتے ہیں ایسے سلاطین کے دروازوں پر فتنے ہوتے ہیں۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۹۸)
۱۰۔جو دنیا کو چاہے گا وہ آخرت کا نقصان کرے گا اورجو آخرت کو چاہے گا وہ دنیا کا نقصان کرے گا،لہذا ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت کی وجہ سے فانی دنیا کا نقصان کرلو(لیکن آخرت کا نہ کرو)
(حلیۃ الاولیاء؛۱/۱۳۸)
۱۱۔انسان جیسا بوئے گا ویسا اسے ملے گا(اورہرانسان کو اس کے مقدر کا ضرور مل کر رہے گا لہذا)سست آدمی کے مقدر میں جو لکھا ہوا ہے وہ اسے مل کر رہے گا اورکوئی تیز آدمی اس سے آگے بڑھ کر اس کے مقدر کا نہیں لے سکتا اورخوب زیادہ کوشش کرنے والا انسان وہ چیز حاصل نہیں کرسکتا جو اس کے مقدر میں نہیں ہے۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۱۳۴)
۱۲۔جوبڑا بننے کے لئے خود کو اونچا کرے گا اللہ اسے نیچا کریں گے اورجو عاجزی کی وجہ سے خود کو نیچا کرے گا اللہ تعالی اسے بلند کریں گے۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۱۳۸)
۱۳۔مجھے اس آدمی پر بہت غصہ آتا ہے جو مجھے فارغ نظر آتا ہے نہ آخرت کے کسی عمل میں لگا ہوا ہے اورنہ دنیا کے کسی کام میں۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۱۳۱)
۱۴۔حق (نفس پر) بھاری ہوتا ہے ؛لیکن اس کا انجام اچھا ہوتا ہے اور باطل ہلکا لگتا ہے لیکن اس کا انجام برا ہوتا ہے اور انسان کی بہت سی خواہشیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کے نتیجے میں انسان کو بڑے لمبے غم اٹھانے پڑتے ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۱۳۴)
۱۵۔کبھی دلوں میں نیک اعمال کا بڑا شوق اورجذبہ ہوتا ہے اورکبھی شوق اورجذبہ بالکل نہیں رہتا تو جب دل میں شوق اورجذبہ ہوتواسے تم لوگ غنیمت سمجھو اورجب شوق اور جذبہ بالکل نہ ہو تو دل کو اس کے حال پر چھوڑدو۔
(حلیۃ الاولیاء:۱/۱۳۴)
۱۶۔جب تم کس برائی کو ہوتے ہوئے دیکھو اور اسے بند کرنے اور روکنے کی تم میں طاقت نہ ہو تو تمہاری نجات کے لئے اتنا کافی ہے کہ اللہ تعالی کو معلوم ہوجائے کہ تم اس برائی کو دل سے براسمجھتے ہو۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۸۱۲،۸۱۳)
۱۷۔قیامت کے دن سب سے زیادہ خطائیں ان لوگوں کی ہوں گی جو دنیا میں فضول بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۲/۲۹۶)
۱۸۔اپنی ضرورتیں فرض نمازوں پر اٹھارکھو یعنی فرض نمازوں کے بعد اپنی ضرورتیں اللہ تعالی سے مانگو۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۰۸)
۱۹۔جو علم حاصل نہ کرے اس کے لئے ایک مرتبہ ہلاکت ہے اوراگر اللہ تعالی چاہتے تو اسے علم عطا فرمادیتے اورجو علم حاصل کرے اوراس پرعمل نہ کرے اس کے لئے سات مرتبہ ہلاکت ہے۔
۲۰۔وہ آدمی پاگل ہے کہ اس سے جو بھی فتویٰ پوچھا جائے وہ فوراً فتویٰ دے دے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۲۸۳)
۲۱۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ آدمی علم سیکھ کر بھول جاتا ہے اس کی وجہ گناہوں میں مبتلا ہونا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۳۰۰)
۲۲۔تم ایسے زمانہ میں ہو جس میں تقریریں کرنے والے کم ہیں اورسمجھنے والے زیادہ، عنقریب ایسا زمانہ آنے والا ہے جس میں تقریریں کرنے والے زیادہ اورسمجھنے والے کم ہوں گے۔
(ثمرات الاوراق:۲۱۷)
(۱)لوگ نعمتوں کی وجہ سے غفلت میں پڑ کر گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ، تعریفوں کی وجہ سے احساس ِبرتری میں مبتلا ہوکر آزمائشوں سے دوچار ہوجاتے ہیں ،اور اپنے عیبوں پر نظر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ سے دھوکہ کھاجاتے ہیں ۔
(۲)فرائضِ اسلامی کی تکمیل سب سے بڑی عبادت گزاری ہے ، گناہوں سے بچنا سب سے بڑی دین داری ہے ، اور تقدیر سے مطمئن و راضی ہوجانا سب سےبڑی مالداری ہے ۔
(۳)چار چیزیں قلب کا اندھیرا ہیں :
بے پرواہی سے بھرا ہوا پیٹ ، ظالموں کی صحبت ، گناہوں کو بھول جانا ، اور طولِ امل یعنی لمبی لمبی امیدیں ۔
(۴)جب تیرا کوئی دوست ہو تو اس کی محبت کے بارے میں اس سے نہ پوچھ بلکہ اپنے دل کو دیکھ کیونکہ جو تیرے دل میں ہوگا ویسا ہی اس کے دل میں ہوگا ۔
(۵)اس ہنسنے والے پر تعجب ہے جس کے پیچھے دوزخ ہو ، اور اس خوش ہونے والے پر حیرت ہے جس کے پیچھے موت لگی ہوئی ہے ۔
(۶)جس نے ظالم کی امداد کی یا اسے ایسی بات سکھلائی جس سے وہ مسلمان کا حق مار سکے تو وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگیا ۔
(۷)آپ سے پوچھا گیا کہ عقلمند کون ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ عقلمند وہ ہے جو اپنے مال کو ایسی جگہ محفوظ رکھے جہاں اسے نہ کیڑا لگے اور نہ چوری ہو یعنی آسمانوں میں اللہ کے پاس ۔
(۸)جنت کے آٹھ دروازے ہیں تمام کھلتے اور بند ہوتے ہیں ، مگر توبہ کے دروازہ پر فرشتہ ہے جو اسے بند ہونے نہیں دیتا، پس التجا کرو اور نا امید نہ ہو ۔
(۹)جو شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان ستّر سال عبادت کئے ہوے ہو مگر کسی ظالم سے محبت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسی ظالم کے ساتھ محشور فرمائے گا ۔
(۱۰)علم کثرت روایت کا نام نہیں بلکہ علم تو وہ ہے جو خوف ِخدا کے ساتھ ہو۔
(۱۱)آدمی کے علم سے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ سے ڈرے اور اس کے جہل و نادانی کے لئے اتنا بس ہے کہ اپنے عمل پر نازاں ہو۔
(۱۲)جو آخرت چاہے گا اس کو دنیا کا نقصان ہوگا اور جو دنیا کو چاہے گا اس کی آخرت کو نقصان لاحق ہو گا تو اے لوگو! باقی اور پائیدار چیز کے واسطے فانی اور ناپائیدار کا نقصان قبول کرلو ۔
(۱۳)آدمیوں کے مدح و ذم کی پروا نہ کرو اس لئے کہ ایک شخص آج تم کو اچھا لگتا ہے اور کل وہی برا معلوم ہونے لگتا ہے اور جو آج برا معلوم ہوتا ہے وہ کل اچھا دکھائی دینے لگتا ہے ۔
(۱۴)اللہ سے ڈرتے رہو ، اپنی زبان کو قابو میں رکھو ، اور اپنے گناہوں کو یاد کرکے روتے رہو ۔
(۱۵)جس کے سینہ میں قرآن ہو اس کو ایساہوناچاہئے کہ وہ اپنی رات سے پہچانا جائے جب لوگ سو رہے ہوں ، اور اپنے دن سے پہچانا جائے جب لوگ روزہ سے نہ ہوں ، اوراپنی غمگینی سے پہچانا جائے جب لوگ خوش ہورہے ہوں ، اور اپنی گریہ وزاری سے پہچانا جائےجب لوگ ہنس رہے ہوں ، اور اپنی خاموشی سے جب لوگ بکواس کررہے ہوں ، اور اپنی مسکین مزاجی سے جب لوگ اکڑ رہے ہوں۔
(۱۶)اللہ تعالیٰ دنیا تو دوست اور دشمن سب کو دےدیتا ہے مگر ایمان اسی کو عطا فرماتا ہے جس کو چاہتا ہے ۔
