
(۱) جب کوئی نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے تو اس کے حاسد پیدا ہوجاتے ہیں۔
(۲) واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے حکمرانوں کو اس بات کی تاکید فرمائی ہے کہ رعایا کی دیکھ بھال کریں اور اس بات کی تاکید نہیں فرمائی کہ رعایا سے ٹیکس وصول کریں۔
(۳) ایمانداری اور ایفائے عہد کی پاسداری کے ذریعہ قلوب انسانی فتح کئے جاسکتے ہیں۔
(۴) امانت اور دیانت کے ساتھ ضروری ہے کہ آپ اپنے عہد و پیمان پر قائم رہیں۔
(۵) آپ کی سیرت میں برائیوں کی جھلک بھی نظر نہیں آنا چاہئے۔
(۶) سب کے ساتھ انصاف سے پیش آؤ اور سب کے رتبہ کا خیال رکھو، کیونکہ رتبہ کی پاسداری ہی انصاف ہے۔
(۷) نہ تو خرچ کرنے سے بالکل ہاتھ روک لو اور نہ اتنی فراخدلی سے خرچ کرو کہ باقی کچھ نہ بچے۔
(۸) کینہ اور حسد مومن کو منافق بنادیتا ہے۔
(۹) مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔
(۱۰) شریفوں کے لئے گھٹیا اور ادنیٰ لوگوں سے نمٹنا اور عہدہ برآ ہونا بہ حد مشکل ہوتا ہے۔
(۱۱) بعض اوقات جرم سے چشم پوشی مجرم کو بہت خطرناک بنادیتی ہے۔
(۱۲) کلام اللہ شریف ایک ہے اور ایک ہی ذاتِ اقدس کی طرف سے آیا ہے۔
(۱۳) آہستہ بولنا، نیچی نگاہ رکھنا، درمیانی چال چلنا، اہل ایمان کی علامت ہے۔
(۱۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے۔
(۱۵) تنگ دستی پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ فراخی عطا فرماتا ہے۔
(۱۶) اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیا اس لئے دی ہے تاکہ تم اس کے ذریعہ آخرت کا آرام طلب کرو۔
(۱۷) اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے کا نام ہی بزرگی ہے۔
(۱۸) تلوار کا وار جسم کو زخمی کرتا ہے اور بری بات روح کو گھائل کرتی ہے۔
(۱۹) خاموشی غصہ کا بہترین علاج ہے۔
(۲۰) حق پرست اگرچہ تعداد میں کم ہوتے ہیں مگر ان کا رتبہ زیادہ ہوتا ہے۔
(۲۱) گناہ کسی نہ کسی صورت دل کو بے چین رکھتا ہے۔
(۲۲) غلط جگہ پر مال و دولت خرچ کرنا کفرانِ نعمت ہے۔
(۲۳) اپنا بوجھ دوسروں پر مت ڈالو چاہے کم ہو یا زیادہ۔
(۲۴) اللہ نے انسانوں کو اپنے لئے بنایا، چنانچہ انسانوں کو چاہئے کہ دوسرے کا نہ بنے۔
(۲۵) جو شخص تمہاری نگاہوں سے تمہاری ضرورت کو سمجھ نہیں سکتا اس کو مددگار کہنا اور اس سے امید رکھنا خود کو شرمسار کرنے کے برابر ہے۔
(۲۶) اللہ کے سوائے کسی سے امید رکھنا شرک ہے۔
(۲۷) پر خوری بھی ایک طرح کی بیمار ہے۔
(۲۸) جس نے انسانوں کا حق نہیں پہچانا اس نے اللہ کا حق نہیں پہچانا۔
(۲۹) حقیر سے حقیر پیشہ بھی بھیک مانگنے سے افضل ہے۔
(۳۰) اللہ تعالیٰ کو ہر لمحہ اپنے ساتھ محسوس کرنا افضل ترین ایمان ہے۔
(۳۱) حیرت ہے کہ تم اللہ پر ایمان بھی رکھو اور دوسروں سے بھی مانگو!
(۳۲) زندگی کا ایک نصب العین متعین کرول اور پھر بھرپور قوت و توانائی سے سرگرم عمل ہوجاؤ، یقیناً کامیاب و کامران ہوگے۔
(۳۳) تعجب ہے اس پر جو دنیا کو فانی جانے اور محبت بھی اُسی سے کرے۔
(۳۴) حیرت اور افسوس ہے اس پر جو دوزخ پر ایمان بھی رکھے اور گناہ سے تائب نہ ہو۔
(۳۵) زبان درست ہو تو دل بھی درست ہوتا ہے۔
(۳۶) عقل مند آدمی وہ ہے جو وقت پر کام سر انجام دیتا ہے۔
(۳۷) سخاوت پھل ہے مال کا، عمل پھل ہے علم کا اور رضائے الٰہی پھل ہے اخلاص کا۔
(۳۸) دنیا کی پہچان رکھنے والا اس سے نفرت کرتا ہے۔
(۳۹) ہر وہ کام اچھا ہے جس سے آخرت کی بھلائی مقصود ہو۔
(۴۰) ظالموں اور فاسقوں سے دوستی نہ رکھو۔
(۴۱) وہ انسان بہت گناہگار ہے جس کو لوگوں کی برائی ہی کے لئے وقت ملے۔
(۴۲) آنکھیں کھلی اور روشن ہوں تو ہر روز روزِ محشر ہے۔
(۴۳) علماء کی مالداروں سے دوستی یقیناً ریاکاری ہے۔
(۴۴) تم نیکی ہی کا راستہ اختیار کرو اگرچہ مشکلات ہی درپیش ہوں۔
(۴۵) وہی مومن ہے جس کو یادِ الٰہی سے فرحت ملے۔
(۴۶) محب اللہ کو تنہائی پسند ہوتی ہے۔
(۴۷) لوگ تمہارے عیبوں کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
(۴۸) جس نے کسی کی غیبت سنی گویا اسی نے غیبت کی۔
(۴۹) قضاء پر رضاء دنیا کی جنت ہے۔
(۵۰) غریبوں اور مسکینوں کا تمہارے دراوزے پر آنا انعامِ الٰہی ہے۔
(۵۱) دوسروں کو صدقہ کی طرف راغب کرنے کے لئے سر عام صدہ دینا چپکے سے دینے سے بہتر ہے۔
(۵۲) بد زبان آدمی اپنی بدزبانی سے اپنا نقصان کرتا ہے اور اس کا نقصان کرتا ہے جس کی برائی کرتا ہے۔
(۵۳) اچھے کھانوں کے شوقینو! سن لو آخر کار تم کو قبر کے کیڑے ہی کھائیں گے۔
(۵۴) مرنے والوں کے انجام سے عبرت حاصل کرو۔
(۵۵) دوسروں کے بوجھ کو اپنا سمجھنا عبادت گذروں کی عبادت سے بہتر ہے۔
(۵۶) مسلمانو! تمہاری ذلت کا اصل سبب دین سے بے رغبتی ہے ناکہ مفلسی۔
(۵۷) حیرت ہے کہ جانور تو اپنے مالک کو پہچانے مگر انسان اپنے مالک کو نہ پہچانے۔
(۵۸) مسلمانو! تم جب اپنے دین سے غافل ہوجاؤگے تو ذلیل و خوار ہوجاؤگے۔
(۵۹) حد سے زیادہ تکلف آپس میں نفرت ڈال دیتی ہے۔
(۶۰) مدینہ الرسولؐ کی جس قدرت عزت کرو کم ہے۔
(۶۱) قرآن و سنت کی اتباع کرنے والا مومن ہے، نہ کرنے والا منافق۔
(۶۲) فانی چیزوں کو ترک کرکے ابدی خوشی حاصل کرو۔
(۶۳) میں تاریک گھروں میں غسل کرنے کے باوجود اللہ سے شرم کی وجہ سے ڈرتا رہتا ہوں۔
(۶۴) پرہیزگار وہ ہے جو خود کو گناہگار اور دوسروں کو پاک خیال کرے۔
(۶۵) زبان کی لغزش قدموں کی لغزش سے زیادہ نقصاندہ ہے۔
(۶۶) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے تقاضے صحیح طریقہ سے پورے کرنے سے جنت کی امید کرسکتے ہو۔
(۶۷) بے شک دنیا ایک دکھاوا اور مومن کی آزمائش ہے۔
(۶۸) غریب آدمی کا صدقہ امیر آدمی کے صدقہ سے ہزار گنا بڑھ کر ہے۔
(۶۹) آسودہ حالی کے باوجود مال و دولت کی طلب کفرانِ نعمت ہے۔
(۷۰) ملامت خلق کا شکوہ نہ کرو کہ ذاتِ حق بھی زبانِ خلق سے محفوظ و سلامت نہیں۔
(۷۱) بات شروع کرنے سے پہلے تأمل کرلینا اس سے بہتر ہے کہ کرنے کے بعد اُسے موقوف کیا جائے۔
(۷۲) بے نفس وہ ہے جو اپنی مذمت اور دوسروں کی تعریف سے خوش ہو۔
(۷۳) جاہل وہ ہے جو اپنی خطا پر نادم نہ ہو اور کبھی اپنا قصور تسلیم نہ کرے۔
(۷۴) اس شخص کی زندگی بے معنی ہے جس سے دنیا میں کوئی کام اچھا سرزد نہ ہوا ہو۔
(۷۵) اگر یہ منظور ہو کہ اپنے راز سے دشمن بھی واقف نہ ہونے پائے تو اس راز کو اپنے دوست سے بھی خفیہ رکھو۔
(۷۶) جو شخص دین کی پرواہ نہیں کرتا اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے بے لگام گھوڑا۔
(۷۷) تمہارا بھائی وہ ہے کہ تمہارا نفس اس پر بھروسہ رکھے اور تمہارے دل کو اس سے آرام رہے، اور جو تمہیں یادِ الٰہی سے غافل کردے۔
(۷۸) مومن کا سب سے بڑا دشمن فعلِ بد ہے اور سب سے بڑا خیر خواہ نیک عمل ہے۔
(۷۹) عذاب کی تلخی گناہ کی شیرینی کو بھلادیتی ہے۔
(۸۰) جب تم تنہائی میں ہو تو اپنے خیالات کو قابو میں رکھو اور جب کسی محفل میں ہو تو اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
(۸۱) جس شخص میں عہدہ کی قابلیت موجود نہ ہو اُسے کوئی ذمہ داری نہ دو۔
(۸۲) دنیا میں چار چیزیں وبالِ جان ہیں: (۱)کثرتِ عیال، (۲) مال کی کمی، (۳)بُرا پڑوسی، (۴)خائنہ بیوی۔
(۸۳) تین کام افضل تر ہیں: ۱۔فاسق و فاجر کو راہ راست پر لانا، ۲۔تعلیم و تربیت سے جاہل کو عالم بنانا، ۳۔ دشمن کو دوست بنانا۔
(۸۴) بہادر کا امتحان میدانِ جنگ میں، دوست کا امتحان ضرورت کے وقت اور عقلمند کا امتحان غصہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
(۸۵) انسان اپنی مصیبت کو اس وقت آرام سے سہہ لیتا ہے جب وہ اپنے دشمنوں کو اپنے سے بدتر حال ت میں دیکھتا ہے۔
(۸۶) جو کام تم خود کرسکتے ہو اس کو دوسروں پر مت چھوڑو اور جو کام تم آج کرسکتے ہو اُسے کل پر مت ڈالو۔
(۸۷) ہمارا امیر ہونا اور غریب ہونا ہماری روح پر منحصر ہے۔
(۸۸) انسان اپنے برے افعال کو انجام دینے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے۔
(۸۹) ظالم کی مدد کرنا بجائے ترک تعلق کے اسی کے ساتھ نیکی کرنا خلق خدا کا خون اپنی گردن پر لینا ہے۔
(۹۰) ضرورت سب چیزوں پر غالب آجاتی ہے۔
(۹۱) اس دنیا میں خود کو پہچاننا مشکل ترین کام ہے۔
(۹۲) عقلمند کے سامنے زبان کو، حاکم کے ساتھ آنکھ کو اور بزرگوں کے سامنے دل کو قابو میں رکھنا چاہئے۔
(۹۳) انسان کو اپنے نسب پر فخر نہ کرنا چاہئے بلکہ کسب و حسب کو دیکھنا چاہئے۔
(۹۴) دنیا میں کامیاب ہونا، اپنی قوت، اپنے حوصلے اور اپنی روحانی طاقت پر ہی منحصر ہے۔
(۹۵) جس نے خاموشی اختیار کی اس نے گویا زندگی بڑھائی۔
(۹۶) جو بات تمہارے دل میں پیدا ہو اس کو پہلے ہی درست نہ سمجھو بلکہ اس کی اصلیت پر غور کرو۔
(۹۷) متقی لوگ ریاضت کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہی صابر ہوتے ہیں۔
(۹۸) محنتی اور جفا کش کی نیند خواہ وہ کم کھائے یا زیادہ، میٹھی ہوتی ہے، مگر مال کی زیادتی صاحب مال کو آرام سے سونے نہیں دیتی۔
(۹۹) خوشی سے انسان کے چہرے پر نور برستا ہے اور رنجیدہ بات سے بگڑ جاتا ہے۔
(۱۰۰) نوجوانی کی بے وقوفیاں بڑھاپے میں توبہ کے لئے خوراک بنتی ہیں۔
۱۔دل کا غنا آدمی کو غنی بنادیتا ہے؛ حتی کہ اسے بڑے مرتبے والا بنادیتا ہے،اگرچہ یہ غنا اسے اتنا نقصان پہنچائے کہ فقراُ سے ستانے لگے۔
۲۔اگر تمہیں کوئی مشکل پیش آئے تو تم اس پر صبر کرو ؛کیونکہ ہر مشکل کے بعد آسانی ضرورآتی ہے۔
۳۔جوزمانہ کی سختیاں برداشت نہیں کرتا اسے کبھی غم خواری کے مزے کا پتہ نہیں چل سکتا،زمانے کے حوادث پر ہی اللہ تعالی نے سب کچھ دینے کا وعدہ کیا ہے۔
(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ:۲/۱۳۳)
۴۔اگر ہمارے دل پاک ہوتے تو ہم اپنے رب کے کلام سے کبھی سیر نہ ہوتے اورمجھے یہ پسند نہیں ہے کہ میری زندگی میں کوئی دن ایسا آئے جس میں،میں دیکھ کر قرآن نہ پڑھوں۔
۵۔دنیا سرسبز وشاداب ہے اورتمام لوگوں کے دلوں میں اس کی رغبت رکھ دی گئی ہے اوربہت لوگ اس کی طرف مائل ہوچکے ہیں، لہذا تم دنیا کی طرف مت جھکو اور اس پر بھروسہ نہ کرو یہ بھروسے کے قابل نہیں اوریہ اچھی طرح سمجھ لوکہ یہ دنیا صرف اسے چھوڑتی ہے جو اسے چھوڑدے۔
(تاریخ الطبری:۳/۴۶)
۶۔اے ابن آدم!جان لوکہ اگر تم اپنے بارے میں غفلت میں پڑ گئے اور تم نے موت کی تیاری نہ کی تو تمہارے لئے کوئی اورتیار نہیں کرے گا اور اللہ تعالی سے ملاقات ضرور ہونی ہے، اس لئے اپنے لئے نیک اعمال لے لو اوریہ کام دوسروں پر نہ چھوڑو۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۱۹۵)
۷۔یقین رکھو کہ جس کے ساتھ اللہ ہوگا وہ کسی چیز سے نہیں ڈرے گا اور اللہ جس کے خلاف ہوگا وہ اللہ کے علاوہ اور کسی سے مدد کی کیا امید کرسکتا ہے۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۸۵)
۸۔چھوٹی عمر کے غلام کو کما کر لانے کا مکلف نہ بناؤ ؛کیونکہ اگر تم اسے کمانے کا مکلف بناؤ گے تو وہ چھوٹا ہونے کی وجہ سے کما نہیں سکے گا اس لئے چوری شروع کردے گا،ایسے ہی جو باندی کوئی کام یا ہنر نہ جانتی ہو اسے بھی کما کر لانے کا مکلف نہ بناؤ ؛کیونکہ اگر تم اسے کما کر لانے کا مکلف بناؤ گے تو اسے کوئی کام اورہنر تو آتا نہیں اس لئے وہ اپنی شرم گاہ کے ذریعہ یعنی زنا کے ذریعہ کمانے لگ جائے گی۔
(حیاۃ الصحابۃ:۳/۴۹۶)
۹۔ضائع ہے وہ عالم جس سے علم کی بات نہ پوچھیں ،وہ ہتھیار جس کو استعمال نہ کیا جائے ،وہ مال جو کار خیر میں خرچ نہ کیا جائے،وہ علم جس پر عمل نہ کیا جائے،وہ مسجد جس میں نماز نہ پڑھی جائے،وہ نماز جو مسجد میں نہ پڑھی جائے،وہ اچھی رائے جس کو قبول نہ کیا جائے،وہ مصحف جس کی تلاوت نہ کی جائے،وہ زاہد جو خواہش دنیا دل میں رکھے،وہ لمبی عمر جس میں آخرت کا توشہ نہ لیا جائے۔
۱۰۔بعض اوقات جرم معاف کرنا مجرم کو زیادہ خطرناک بنادیتا ہے۔
۱۱۔دنیا ہر وہ کام ہے جس سے آخرت مقصود نہ ہو۔
۱۲۔زبان کی لغزش پاؤں کی لغزش سے زیادہ خطرناک ہے۔
۱۳۔اگر تو گناہ پر آمادہ ہے تو کوئی ایسا مقام تلاش کر جہاں اللہ تعالی نہ ہو۔
۱۴۔ترغیب دلانے کی نیت سے علانیہ صدقہ دینا خفیہ سے بہتر ہے۔
۱۵۔امراء کی تعریف کرنے سے بچ کہ ظالم کی تعریف سے غضب الہی نازل ہوتا ہے۔
۱۶۔تلوار کا زخم جسم پر ہوتا ہے اوربرے گفتار کا روح پر۔
(مخزنِ اخلاق:۸۳،۸۴)
(۱)دنیا کی فکر دل کا اندھیرا ہے اور آخرت کی فکر دل کی روشنی ہے ۔
(۲)جو شخص دنیا کو چھوڑ دیتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتے ہیں ، جو شخص گناہوں کو ترک کردیتا ہے اس سے فرشتے محبت کرتے ہیں ، اور جو بندوں سے لالچ و طمع کو اٹھا لیتا ہے بندے اس سےمحبت کرتے ہیں ۔
(۳)فرمایا کہ میں نے عبادت کا مزہ چار چیزوں میں پایا :اللہ کے فرضوں کو ادا کرنے میں ، اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنے میں ، ثواب کی امید پر اچھی باتوں کے پھیلانے میں ، اور عذابِِ الٰہی سے بچنے کی نیت سے لوگوں کو برائیوں سے روکنے میں ۔
(۴)چار چیزیں ایسی ہیں کہ ان کا ظاہر فضیلت ہے اور ان کا باطن فریضئہ خداوندی ہے : صالحین کی صحبت فضیلت ہے اور ان کی اتباع کرنا فرض ہے ، قرآن کی تلاوت فضیلت ہے اور اس پر عمل کرنا فرض ہے ، قبروں کی زیارت فضیلت ہے اور اس کی تیاری کرتے رہنا فرض ہے ، اور مریض کی عیادت فضیلت ہے اور اس کی وصیت پوری کرنا فرض ہے ۔
(۵)مجھے تعجّب ہے! اس شخص پر جو موت کی حقیقت جانتا ہے پھر بھی ہنستا ہے ۔
تعجّب ہے! اس شخص پر جو دنیا کی حقیقت سے واقف ہو کہ وہ فانی ہے پھر بھی اس سے رغبت کرتا ہے ۔ تعجّب ہے! اس شخص پر جو جانتا ہے کہ سب معاملات تقدیر سے متعلق ہیں پھر بھی کسی نعمت کے فوت ہونے پر غمگین رہتا ہے ۔
تعجّب ہے! اس شخص پر جو حساب کی سختی کو جانتا ہے پھر بھی مال جمع کرکے رکھتا ہے۔
تعجّب ہے ! اس شخص پر جو دوزخ کے بارے میں علم رکھتا ہے پھر بھی گناہ پر جرأت کرتا ہے ۔
تعجّب ہے ! اس شخص پر جو اللہ پاک کی ذات پر یقین رکھتا ہے پھر بھی اس کے غیر کے ذکر میں رہتا ہے ۔ تعجّب ہے! اس شخص پر جو شیطان کو بالیقین اپنا دشمن سمجھتا ہے پھر بھی اس کا کہا مانتا ہے ۔
(۶)عارفِ کامل کی آٹھ صفات ہیں: اس کا دل خوف و رجاء سے متصف رہتا ہے ، اس کی زبان حمد و ثنا ء کے ساتھ متصف رہتی ہے ، اس کی آنکھیں حیاء و بکاء کی صفت سے مزین رہتی ہیں ، اور اس کا ارادہ اپنی خواہش کے ترک اور رضاءِ الٰہی کی طلب میں رہتا ہے ۔
(۷)جو شخص نماز کو وقت پر پابندی سے پڑھا کرے اس کو اللہ تعالیٰ نو عزّتیں نصیب فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتے ہیں ، اس کی صحت قائم رکھتے ہیں ، فرشتے اس کی نگہبانی کرتے ہیں اس کے گھر میں برکت نازل ہوتی ہے ، اس کے چہرہ پر صالحین کی نشانیاں ظاہر ہوتی ہیں ، اس کے دل کو اللہ تعالیٰ نرم فرمادیتے ہیں ، اور پل صراط سے وہ اس طرح گزرجائے گا جس طرح بجلی کی چمک ، اس کو جہنم سے بچالیا جائے گا ،اور اس کو ان لوگوں کا مقرب بنایا جاتا ہے جنہیں نہ کوئی غم ہوگا نہ کوئی فکر(یعنی اللہ والوں کا )۔
(۸)اللہ کے ساتھ تجارت کرو نفع بہت ہوگا (یعنی خوب صدقہ خیرات کرو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو )۔
(۹)متقی کی علامت یہ ہے کہ تمام لوگوں کے بارے میں یہ سمجھے کہ نجات پاجائیں گے اور اپنے بارے میں یہ سمجھے کہ میں ہلاک ہوگیا ۔
(۱۰)سب سے بڑی بربادی یہ ہے کہ کسی کو بڑی عمر ملے اور وہ سفرِ آخرت کی تیاری نہ کرے ۔
(۱۱)دنیا جس کے لئےقید خانہ ہو تو قبر اس کے لئے باعث ِ راحت ہوگی ۔
(۱۲)اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو دنیا اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ آخرت کا سامان کرو ،اس لئے نہیں دی ہے کہ تم اسی کے ہوکر رہ جاؤ ۔
(۱۳)لوگو اللہ بڑا غیرت مند ہے اس سے ہوشیار رہو اپنی جماعت کا ساتھ نہ چھوڑو اور اپنی اپنی ٹولیاں الگ نہ بناؤ ۔
(۱۴)یاد رکھو !دنیا ایک دھوکہ کی ٹٹی ہے جو لوگ گزر گئے ان سے عبرت حاصل کرو ۔
