
(۱) دنیا کے ٹھاٹ باٹ سے نظریں ہٹالو اور دنیا کی محبت دل میں نہ لاؤ، خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا کی محبت تمہیں ہلاک کرڈالے، جیسے پچھلی قوموں کو ہلاک کردیا تھا۔
(۲) اللہ پر اعتماد پختہ رکھو کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کوئی وعدہ جھوٹا نہیں ہوتا۔
(۳) سرکاری عہدہ دارو! تم دولت کے سوتوں پر بیٹھ گئے ہو، حرام طریقوں سے مال کماتے ہو، حرام کھاتے ہو اور اپنی اولاد کو حرام دولت کا وارث بناتے ہو۔
(۴) میں سب کو اللہ سے ڈرنے کی تلقین کرتا ہو کہ اللہ کے سوا ہر چیز فانی ہے۔
(۵) اسلامی حکومت صرف وہ شخص قائم کرسکتا ہے جو محکم تدبیر ہو، فرائض کی انجام دہی میں جو ذرا غفلت نہ برتے، جس کا چال چلن لوگوں کی نظر میں بے داغ ہو، جس کے دل میں رعایا کی طرف سے کینہ نہ ہو اور جو صحیح کام کرنے اور حق بات کہنے میں کسی سے نہ ڈرتا ہو۔
(۶) ہر حاکمِ وقت رعایا کی بہ راہروی کا ذمہ دار ہے اور اللہ جل شانہ کے آگے جوابدہ ہے۔
(۷) جو اللہ سے راہنمائی کا طالب ہوتا ہے اللہ اس کا دل اسلام کے لئے کھول دیتا ہے۔
(۸) وعدہ ہر حال میں وفا کرو، وفا تو بے وفائی میں بھی اچھا اثر دکھاتی ہے۔
(۹) کیوں تم لوگوں کو قیدی بناتے ہو؟ حالانکہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد پیدا کیا تھا۔
(۱۰) ایمان کے بعد سے بری نعمتِ الٰہی نیک بیوی ہے۔
(۱۱) جو شخص اپنے راز کو پوشیدہ رکھتا ہے وہ اپنی سلامتی کو اپنے قبضہ میں رکھتا ہے۔
(۱۲) انسان کا اسراف اس کا نام ہے کہ جس چیز کو وہ چاہے کھائے۔
(۱۳) قوت فی العمل یہ ہے کہ آج کے کام کل پر نہ اٹھا رکھے جائیں۔
(۱۴) توبۃ النصوح کا مطلب یہ ہے کہ بُرے فعل سے اس طرح توبہ کی جائے کہ پھر اس کو کرنے کا سوچے بھی نہیں۔
(۱۵) خشوع خضوع کا تعلق دل سے ہے نہ کہ ظاہری حرکات سے۔
(۱۶) مقدمات کا تصفیہ جلد کرنا چاہئے تاکہ دعویٰ کرنے والا دیر کے سبب کہیں اپنے دعویٰ سے مجبوراً دست بردار نہ ہوجائے۔
(۱۷) احمق کی دوستی سے احتراز کرو، کیونکہ اگر وہ بھلائی بھی کرنا چاہے تو بھی نہیں کرسکتا۔
(۱۸) ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ واحد کو دل سے پہچانے اور زبان سے اس کا اقرار کرے اور احکاماتِ شریعت پر عمل کرے۔
(۱۹) شبہ کی ساتھ کمانا بھیک مانگنے سے بہتر ہے۔
(۲۰) کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ تلاش رزق میں بیٹھ جائے اور دعاء کرے کہ: اے اللہ مجھے رزق دے، کیونکہ تمہیں معلوم ہے کہ آسمان سے سونا اور چاندی نہیں برسا کرتے۔
(۲۱) جو تمہاری خوشامد کرتا ہے وہ تمہارے اور خود اپنے نفس کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔
(۲۲) میں کسی چیز کو نہیں دیکھتا مگر اس کے ساتھ اللہ کو دیکھتا ہوں۔
(۲۳) انسان کی سب آرزوئیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔
(۲۴) جو شخص اپنے آپ کو عالم کہے وہ جاہل اور جو اپنے آپ کو جنتی کہے وہ جہنمی ہے۔
(۲۵) بڑھاپے سے پہلے علم حاصل کرو۔
(۲۶) جب عالم دین کو لغزش ہوتی ہے تو اس سے ایک عالم لغزش میں پڑجاتا ہے۔
(۲۷) جب تم کسی صاحب علم کو دنیا کی جانب مائل دیکھو تو سمجھ لو کہ دین بارے میں وہ قابلِ الزام ہے، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص جس چیز کا خواہاں ہوتا ہے وہ اسی کی دھن میں ہر وقت مشغول رہتا ہے۔
(۲۸) خدا اس شخص پر رحمت فرمائے جو میرے عیبوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
(۲۹) تین چیزیں محبت بڑھانے کا موجب ہیں: اول سلام کہنا، دوم دوسروں کے لئے مجلس میں جگہ خالی کرنا اور تیسرا مخاطب کو بہترین نام سے پکارنا۔
(۳۰) ندامت چار قسم کی ہوتی ہے:
(الف)ندامت ایک اس دن کی جب کوئی شخص تیرے گھر سے کھانا کھائے بغیر چلا جائے۔
(ب) ندامت سال بھر کی جبکہ کھیتی باڑی کا وقت غفلت میں گذر جائے۔
(ج) ندامت عمر بھی کی جبکہ بیوی سےمواقفقت (Understanding) نہ ہو۔
(د) ندامتِ ابدی کہ تم سے اللہ تعالیٰ خوش نہ ہو۔
(۳۱) اگر غیب دانی کے دعوے کا خیال نہ ہوتا تو میں کہتا کہ پانچ شخص جنت میں جائیں گے:
(الف) وہ عیالدار جو محتاج ہوتے ہوئے بھی صبر کرے۔
(ب) وہ عورت جس کا شوہر اس سے راضی اور خوش ہو۔
(ج) وہ عورت جس نے اپنے شوہر کا حقِ معاف کردیا ہو۔
(د) وہ شخص جس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں۔
(ہ) وہ شخص جو اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرے۔
(۳۲) آدمیوں کی تین اقسام ہوتی ہے:
(الف) کامل: وہ ہے جو لوگوں سے مشورہ کرکے اس پر غور کرے۔
(ب) کاہل: وہ ہے جو اپنی رائے پر چلے اور کسی سے مشورہ نہ کرے۔
(ج)لاشئی: وہ ہے جو نہ خود سمجھدار ہو اور نہ وہ دوسروں سے مشورہ کرے۔
(۳۳) مومن کے نماز اور روزے کو نہیں بلکہ اس کی دانائی اور راست بازی کودیکھنا چاہئے۔
(۳۴) جس نے ہوس ریاست اور حکومت کی بے تشک اس کے لئے ہلاکت ہے۔
(۳۵) اللہ تبارک و تعالیٰ نے کائنات تمہارے لئے پیدا فرمائی ہے اور تمہیں اپنے لئے۔
(۳۶) ’’واللہ اعلم‘‘ مت کہو، جو بات نہیں جانتے اس کے متعلق سیدھے طور پر کہو کہ میں نہیں جانتا۔
(۳۷) اللہ رب العزت انسانوں کو براہ راست رزق نہیں دیتا بلکہ انسانوں کے ذریعہ دیتا ہے۔
(۳۸) متوکل وہ ہے جو زمین میں دانہ ڈالتا ہے اور پھر اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔
(۳۹) اللہ اقوام عالم کے عروج و زوال کے فیصلے قرآن کے مطابق کرتا ہے۔
(۴۰) محض لا الٰہ کہنے سے جنت نہیں مل سکتی، بلکہ جنت عمل سے ملتی ہے۔
(۴۱) کسی قوم سے مقابلہ کے وقت یہ نہ دیکھو کہ اس کی اخلاقی خرابیاں تمہاری اخلاقی خرابیوں سے زیادہ ہیں، بلکہ یہ دیکھو کہ تمہاری اخلاقی خوبیاں اس سے کس قدر زیادہ ہیں اور یہی تمہاری کامیابی کا راز ہے۔
(۴۲) اگر تم یہ جاننا چاہو کہ اللہ کے ہاں تمہارا کیا مقام ہے تو دیکھو کہ اللہ کی مخلوق تمہیں کیسا سمجھتی ہے۔
(۴۳) جب حاکم بگڑ جاتا ہے تو رعایا بھی بگڑ جاتی ہے، سب سے بدبخت حاکم وہ ہے جس کے سبب رعایا بگڑ جائے۔
(۴۴) مومن وہ ہے جو نہ کسی کو دھوکہ دے اور نہ دھوکہ کھائے۔
(۴۵) ہماری عزت و عظمت صرف اسلام کے صدقہ میں ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ سب تعریف اسلام کی ہو، ہماری نہیں۔
(۴۶) خلافت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب دیتے وقت بتایا جاسکے کہ کہاں سے لیا تھا اور کس کو دیا تھا، اگر یہ جواب اطمینان بخش ہے تو وہ خلافت ہے، ورنہ ملوکیت ہے۔
(۴۷) کسی کے ثقہ اور قابل اعتماد ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ باہمی معاملات میں کھرا ثابت ہو، یہ نہیں دیکھتا کہ وہ نمازیں بہت پڑھتا ہے۔
(۴۸) بھوک کی حالت میں چوری کرنے والے کو سزا نہیں دینی چاہئے بلکہ اس کو سزا ملنی چاہئے جس کی وجہ سے وہ اس حال کو پہنچا۔
(۴۹) اگر کسی کی خاندانی وجاہت کے خیال سے قانون کا پلڑا اس حق میں جھک جائے تو پھر اللہ کی بادشاہت اور قیصر و کسریٰ کی حکومت میں کیا فرق ہوا؟
(۵۰) جب تک سربراہ مملکت پر وہی کچھ نہ گذرے جو رعایا پر گذرتی ہے تو اُسے ان کی تکالیف کا احساس کیسے ہوسکتا ہے۔
(۵۱) اللہ تعالیٰ حالات اور زمانے کے تقاضوں سے لوگوں کے لئے نئے نئے مسائل پیدا فرماتا ہے، اس لئے ان کے حل کے لئے جدید قوانین ضرورت ہوتی ہے۔
(۵۲) عمر کی رائے وحئی الٰہی نہیں بلکہ یہ ایک انسان کی رائے ہے، جو غلط بھی ہوسکتی ہے، اُسے سند اور سنت نہ بنا ڈالنا۔
(۵۲) حکومت کے منصب کے لئے وہ شخص سب سے موزوں ہے کہ جب وہ اس منصب پر فائز نہ ہو تو قوم کا سردار نظر آئے اور جب فائز ہو تو انہی میں کا ایک فرد نظر آئے۔
(۵۳) طاقتور خائن اور کمزور دیانت دار دونوں حکومت کے لئے نقصان رساں ہوتے ہیں۔
(۵۴) جس کے دل میں اپنی اولاد کے لئے محبت نہیں وہ رعایا کے لئے کس طرح شقیق ہوسکتا ہے؟
(۵۵) جو شخص خود کسی منصب کا خواہشمند ہو اُسے اس پر تعینات نہیں کرنا چاہئے۔
(۵۶) رعایا اس وقت تک اپنے حاکم کی اطاعت کرتی ہے جب تک وہ قوانین الٰہی کی اطاعت کرتا رہتا ہے اور جب وہ فسق و فجور میں پڑجاتا ہے تو رعایا اس سے بھی زیادہ فاسق و فاجر ہوجاتی ہے۔
(۵۷) ایک گورنر کو فرمان جاری فرمایا کہ تم اپنی رعایا کے لئے ایسے بن جاؤ کہ اگر تم رعیت ہوتے تو چاہتے کہ ہمارا امیر ایسا ہونا چاہئے۔
(۵۸) وہی حکومت درست رہ سکتی ہے جس میں نرمی ہو، لیکن کمزوری کی وجہ سے نہیں اور سختی ہو لیکن استبداد کی بناء پر نہیں۔
(۵۹) گورنر کو فرمایا: ایسے بن کر رہو کہ امن پسند تم سے بے خوف ہو اور بدقماش خوف زدہ۔
(۶۰) جو شر پیدا کرکے غالب آیا وہ غالب نہیں مغلوب ہے، جو ناجائز طریقہ سے کامیاب ہوا وہ کامیاب نہیں ناکام ہے۔
(۶۱) جب تک اسلام میں حکومت کا زور ہے وہ ناقابلِ شکست رہے گا، لیکن حکومت کے زور کا مطلب تلوار نہیں، اس کا مطلب حق کے ساتھ فیصلہ اور انصاف کے ساتھ مواخذہ ہے۔
(۶۲) جو شخص مسلمانوں کا امیر بنے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ غلاموں کی طرح مخلص اور امین ہو۔
(۶۳) جھوٹا کھاؤ، گاڑھا پہنو، عجمیوں کی طرح تکلف نہ کرو۔
(۶۴) جس میں تکبر دیکھو سمجھ لو کہ وہ احساس کمتری کا شکار ہے۔
(۶۵) اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے۔
(۶۶) جس حاکم کے محل کے دروازے عوام کے لئے بند ہوجائیں وہ قصر سعد نہیں بلکہ قصر فساد ہے۔
(۶۷) مرد کا حسب اس کا دین، نسب اس کی عقل اور مردانگی اس کا حسن خُلق ہے، نکاح کے رشتوں کے لئے یہ خوبیاں تلاش کرو۔
(۶۸) ازدواجی تعلقات میں تصوراتی معیار (Idealism) کام نہیں دیتا اس میں لچک رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
(۶۹) قبیح صورت اور کمینہ خصلت مردوں سے اپنی عورتوں کی شادیاں مت کرو۔
(۷۰) یاد رکھو! جو کچھ تم بیوی کے سلسلہ میں پسند کرتے ہو وہی کچھ عورتیں اپنے خاوندوں کے سلسلہ میں پسند کرتی ہیں۔
(۷۱) جب تمہاری اولاد بالغ ہوجائے تو ان کا نکاح کردیا کرو، خواہ مخواہ ان کے گناہوں کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادو۔
(۷۲) کفر بدترین شئی ہے، اس کے بعد ایک تیز زبان اور بدخلق بیوی سے بدتر کوئی شئ نہیں، اسی طرح ایمان بہترین شئی ہے اس کے بعد ایک خوش خلق محبت کرنے والی بیوی سے بہتر کوئی شئی نہیں۔
(۷۳) زیب و زینت کے لباس عورتوں کے لئے رہنے دو، اپنی ہیئت عورتوں جیسی کبھی نہ بناؤ۔
(۷۴) کم مال اور کثرتِ عیال سب سے بڑی مصیبت ہے۔
(۷۵) جوانی کے زمانہ میں ہر ایسی بات سے بچو جو تمہاری بدنامی کا باعث ہو، تاکہ اگر تم بعد میں بڑے آدمی بن جاؤ تو تمہارا ماضی تمہارے لئے باعثِ ندامت نہ ہو۔
(۷۶) کسی کے اخلاق پر بھروسہ نہ کرو، جب تک تم اس کو غصہ کی حالت میں نہ آزمالو۔
(۷۷) انسان کی عجیب حالت ہے، اس کے بیل یا گدھے میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے تو اس کی اصلاح کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے، مگر اس کی ذات میں جو خرابی پیدا ہوجائے اس کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں دیتا، یعنی یہ اپنے آپ کو بیل اور گدھے جتنی اہمیت بھی نہیں دیتا۔
(۷۸) ایک شخص نے آپؓ کی تعریف کی تو فرمایا: تو مجھے اور اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔
(۷۹) اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو عمرؓ سے اس کی باز پرس ہوگی۔
(۸۰) اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر کھانا وہ ہے جو سب مل کر کھائیں
(۸۱) رعایا پر حکومت کے واجبات کی ادائیگی اس وقت لازم آتی ہے جب وہ حکومت کے رفاہ عامہ سے مستفید ہوجائے۔
(۸۲) اللہ نے مجھے اس کا ذمہ دار ٹہرایا ہے کہ میں تمہاری دعائیں اس تک نہ پہنچنے دوں، کیونکہ میں تمہاری فریاد سن کر تمہیں غمگین ہونے کا موقع ہی نہیں دیتا۔
(۸۳) حکومت کی اصلاح تین چیزوں سے ہوسکتی ہے:
(الف) امانات (ذمہ داریوں) کی ادائیگی۔
(ب) جرائم پر قوت کے ساتھ گرفت۔
(ج) قرآن حکیم کے مطابق فیصلے۔
(۸۴) ہم انہیں باتوں کا حکم دیں گے جن کا حکم اللہ رب العزت نے دیا ہے اور انہیں روکیں گے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔
(۸۵) جس نے اپنی مدد کے لئے ’’فلاں خاندان‘‘ کہہ کر آواز دی سمجھ لو کہ وہ شیطان کی آواز ہے، اسلام کے بعد قبائیلی اور خاندانی تفریقات ختم ہوجاتی ہیں۔
(۸۶) میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ زمانہ قریب آرہا ہے کہ قرآن کی قاری تو بہت ہوں گے مگر فقیہ بہت کم ہوں گے۔
(۸۷) لوگو! قرآن پڑھو! قرآنی علم بناء پر تم میں امتیاز کیا جائے گا، قرآن پر عمل کرو اور اس طرح اہل قرآن کہلاؤ۔
(۸۸) قیامت کے دن کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو، کیونکہ جب تم اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے تو تمہاری کوئی بات پوشیدہ نہیں رہے گی۔
(۸۹) یاد رکھو! اللہ تعالیٰ کسی قوم کو فتح عطا نہیں فرماتا جب تک ان کی نیتیں درست نہ ہوں۔
(۹۰) حقیقت تو یہ ہے کہ تم زمینوں کو تلوار سے فتح کرسکتے ہو مگر انسانی قلوب تلوار سے فتح نہیں کئے جاسکتے، اس کے لئے حسنِ اخلاق درکار ہے۔
(۹۱) جب بھی کبھی دو ایسے معاملات سامنے آئیں جن میں ایک اللہ کے لئے ہو اور دوسرا دنیا کے لئے تو دنیا سے متعلق حصہ پر اللہ سے متعلق حصہ کو ترجیح دو۔
(۹۲) اگر میں دن کو سوجاؤں تو رعایا کا نقصان ہے اور اگر رات کو سوجاؤں تو میری عبادت نہ کرنے کی وجہ سے میرا اپنا نقصان ہے۔
(۹۳) شبہ کی صورت میں سزا دینے کے مقابلہ میں سزا نہ دینا بہتر عمل ہے۔
(۹۴) غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرو بلکہ فیصلہ ملتوی کردو۔
(۹۵) یاد رکھو! قاتل مقتول کا وارث نہیں بن سکتا۔
(۹۶) لوگوں کے فیصلہ کرتے وقت اپنے آپ کو ہمیشہ محاسبہ کے لئے تیار رکھو۔
(۹۷) مجھے لوگوں کی تکالیف کا احساس کس طرح ہوسکتا ہے جب تک مجھ پر بھی وہی کچھ نہ گذرے جو ان پر گذرتی ہے۔
(۹۸) قانون کا سرچشمہ قرآن حکیم ہے، اس کے احکام، اصول اور قواعد سب غیر متبدل ہیں، ان میں کسی قسم کے تغیر و تبدل کا کسی کو حق یا اختیار نہیں۔
(۹۹) اللہ خائن کی قوت اور ثقہ انسان کے عجز سے بچائے۔
(۱۰۰) جب حاکمِ وقت انصاف کا تقاضا پورا کرنے میں بد دل ہوجائے تو وہ منصبِ حکومت کے قابل ہی نہیں رہتا۔
(اقوال کاخزانہ)