رب کائنات کو ہی ہمیشگی ہے، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گا، اللہ رب العزت کی تخلیقات ہر قسم کی اغلاط سے مبرا ہیں، اللہ نے جو چیز بھی اس کائنات میں بنائی وہ بغیر حکمت و دانائی کے نہیں بنائی، اللہ رب العزت نے ہر کام ایک مکمل منصوبہ کے تحت فرمایا، اس کے کسی کام میں کسی بھی مخلوق کے فرد کو تنقید کرنے کی ہمت نہ ہوئی، اللہ کریم کی شان بے پایاں ہے، اس کی ذات لا محدود صفات کی حامل ہے، اللہ پاک کی ذات اقدس کا احاطہ قرین قیاس ہے، جتنے بھی مذاہب اس دنیا میں نظر آتے ہیں ان کی تعلیمات کا مشاہدہ کرنے سے اللہ کریم کی ذات اقدس کی عظمت و دانائی صاف نظر آتی ہے، اس کے درگذر کا یہ عالم ہے کہ نمرود، شداد، قارون اور فراعین مصر جو اپنے آپ کو اللہ کریم کا ہمسر کہلواتے تھے کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی، بہت بڑی بڑی مراعات سے ان کی قوموں کو نوازا جاتا تھا، مگر پھر بھی ان کو مواقع دئے جاتے تھے، سرسبز کھیتیاں، پھلدار باغات، اولاد و مال و دولت ان سب کے باوجود جب اللہ رب العزت کی طاقت کا مظاہرہ دیکھنے میں آتا ہے تو یہ سب طاقتور اقوام چند ساعتوں میں کرۂ ارضی سے غائب ہوتی دکھائی دیتی ہیں، ایسا نظر آتا ہے کہ ان زمینوں پر کبھی کوئی قوم آباد ہی نہ تھی، اس طاقت کے باوجود اس کی شان رحیمی قابل دید ہے، اس کا رحم شان دار ہے، اس کی عنایتیں بے شمار ہیں، اس کے فضائل بے حد و حساب ہیں۔
مگر آج کل یہ خیال بہت مشہور ومعروف ہورہا ہے کہ عام لوگوں کے ذہنوں میں مذہب کی قدر باقی نہیں رہی اور لوگوں کا میلان مذہب سے ہٹ کر دوسری دلچسپیوں کی جانب مبذول ہوچکا ہے، کسی حد تک یہ بات ٹھیک بھی ہے، مگر عوام الناس کا اس میں قصور ہی کیا ہے، مذاہب قتل و غارت گری، عصمت دری، چوری و ڈکیتی، راہزنی اور دوسرے قبیح افعال کی تلقین تو نہیں کرتے، بلکہ وہ تو ان سب باتوں سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں، مگر مذہب میں ہر طرح کے علماء ہوتے ہیں، بہت ہی بلند اقدار کے مالک اور دوسری جانب بہت ہی پست اقدار کے مالک، دین اسلام میں بھی ہر طرح کے علماء کو دیکھا جاسکتا ہے، ان میں سے دوسری قسم کے مذہبی اجارہ داروں نے مذہب کو اس طرح کی شکل دے کر عوام کے سامنے پیش کیا ہے کہ عوام کے خیال میں ان پر بہت سی خواہ مخواہ کی پابندیاں عائد ہوچکی ہے، ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ بلند و بالا سیاسی شخصیات محض اپنی سیاسی دکانداری چمکانے کی خاطر حدود اللہ کو جنگل کے قانون سے ملادیں اور کوئی کچھ نہ بولے۔
اصل میں سب کچھ بولنا یا چپ رہنا مذہب سے لاتعلقی ہی کی وجہ سے ہے، جب ہم مذہب کو ایک کھیل بنالیں گے تو ہمیں احکامات قرآن بھی سمجھ میں نہیں آسکتے، تب ہم ان احکامات کو جو مرضی نام دے دیں، مذہب سے لاتعلق رہنے سے معاشرہ میں چونکہ اخلاقی اقدار کا فقدان پیدا ہوجاتا ہے، چنانچہ لوگوں میں تنگ نظری، آپس میں نا اتفاقی اور تعصبانہ رویہ زور پکرلیتا ہے اور نفرت کو پھلنے پھولنے کا حد سے زیادہ موقع ملتا ہے اور عام لوگ مذہب سے دو ربھاگتے ہیں، حالانکہ آپ کسی بھی مذہب کا مشاہدہ و مطالعہ فرمائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر مذہب در حقیقت محبت، رواداری، وسیع القلبی، بلند خیالی اور اچھے کاموں ہی کی ہدایت کرتا ہے۔
مگر مذہب سے دور رہ کر مایوسی لازم ہوجاتی ہے اور لوگ اپنے اپنے سکون کی خاطر غیراخلاقی ذرائع ڈھونڈنے لگتے ہیں، اسی وجہ سے معاشرہ بری طرح خرابیوں کا شکار نظر آتا ہے، اللہ رب العزت نے اپنی مخلوقات پر جس قدر بھی احسان فرمائے ہیں قرآن حکیم کا نزول سب سے افضل ہے، اللہ کریم نے کسی قسم کا بھی پہلو تشنہ نہیں رکھا، ہر بات کھول کر اپنی اس عنایت میں شامل فرمادی ہے، انسانی زندگی کی شروعات سے لے کر آخرت تک کے مسائل انسانوں کو بتادئے ہیں، اللہ کریم کے اس بے پایاں انعام سے چند احکامات پیش کئے جارہے ہیں، ان پر عمل کرنے کی اللہ رب العزت مجھے اور آپ سب کو توفیق جلیل عطا فرمائے۔ (آمین)