سراپا عیب ہوں میں لائق ثنا تو ہے
خود اپنی حمد مقدس کا منتہیٰ تو ہے
ازل سے تابہ ابد اپنی کبریائی کی
صدائے کن سے حقیقت سنا رہا تو ہے
زبانِ بحر پہ تسبیح حباب کی رکھ دی
طواف کرتے بگولے اڑا رہا تو ہے
جلال مہر و جمال مہ و نجوم کے ساتھ
مزاجِ خلدو جہنم بتا رہا تو ہے
زبان جہل کہاں اور حمد پاک کہاں
ندیمؔ اپنی حقیقت بھی جانتا تو ہے
