بارِ گنہ سے میرا الٰہی جھکا ہے سر
جز تیرے سر فراز نہ مجھ سے کبیب کا
شیطان کھینچتا ہے مجھے سوئے سیّأت
اور یونہی حال ہے میرے نفسِ رغیب کا
توفیقِ نیک ہمرہ دل میرے رکھ مدام
لازم ہے جیسے طفل پہ رہنا ادیب کا
آہ پگاہی سے مرے باطن کو دے جگا
اس فوج کو وہ گویا ہے نعرہ نقیب کا
مجھ روسیہ کے شعر مبیض پہ رحم کر
ایامِ شاب گزرے اب عالم ہے شیب کا
نقشِ دوئی سے لوحۂ خاطر کو صاف رکھ
عادلؔ کو عشق دے تو رسولِ حبیب کا
